چار سال پہلے کا قصہ ہے ،اگست کا آخری عشرہ تھا۔بارش نہیں ہو رہی تھی، تیز دھوپ تھی،پرواہوا(پروائی) چل رہی تھی، اس لئے گرمی بہت نہیں تھی۔ کالم نگار بائک سے سفر کر رہا تھا، راستے میں پیاس کا احساس ہوا، گاؤں کے ایک بازار میں مناسب جگہ دیکھ کر رک گیا۔ کہنے تو یہ چائے کا ہوٹل تھا لیکن سچ پوچھئے تو یہ چائے، سموسہ ،گلاب جامن ،جلیبی بھجیا اور برفی وغیرہ کی دکان تھی ،بڑی سی منڈئی میں تھی، اس کے سامنے نیم وغیرہ کے درخت تھے، باہر دور تک پلاسٹک کی کرسیاں اور لکڑی کے روایتی بنچ لگے ہوئے تھے، کچھ بنچ پر ہیلمٹ بھی رکھے ہوئے تھے، اسٹیل کےجگ بھی جا بجا دکھائی دے رہے تھے، وہاں سائیکل اور بائک بھی کھڑی تھی۔ کچھ نوجوان بائک پر بیٹھے موبائل میں گم تھے، وہ ڈریس میں تھے، ٹائی بھی لگائے ہوئے تھے، ایسا لگ رہا تھا کہ کالج سے ابھی ابھی لوٹے ہیں۔ سموسہ یا چائے کا انتظار کررہے ہیں۔
کچھ لوگ بھروکے(کلہڑ) میں چائے پی رہے تھے، کوئی جلیبی کے بڑے ٹکڑے کو منہ میں ٹھونس رہا تھا، کوئی سموسے کو لال لال میٹھی چٹنی میں ڈبو رہا تھا، کوئی اسٹیل کے جگ اور بھروکے کو ملا کر پیاس بجھا رہاتھا۔ اس طرح پانی پینے کی وضاحت ضروری ہے۔ یہ گاؤں کا خاص منظر ہے۔ ایک ہاتھ سے جگ پکڑتے ہیں ،دوسرے ہاتھ سے بھر وکا سنبھالتےہیں۔بھر وکا منہ میں لگاتے ہیں اور جگ سے اس میں دھیرے دھیرے پانی انڈیلتے ہیں ۔ بتاتے ہیں کہ اس طرح جگ’ جٹھا‘( جوٹھا ) نہیں ہوتا۔ کالم نگار یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں آل انڈیا ریڈیو(آکاشوانی) کا اردو خبرنامہ سنائی دیا۔ تجسس بڑھا، حیرت بھی ہوئی کہ آخر اس ویرانے میں اردو کی بہار کیسے آئی ؟ یہاں کسےاس زبان سے دلچسپی ہے؟ کون یہاں ’تاریخ رقم‘ کرنے کا مطلب سمجھتا ہوگا ؟دوسرے یہ کہ طویل عرصے کے بعد ریڈیو سے کوئی آواز سننے کا اتفاق ہوا تھا۔بس اس آواز کے پیچھے پیچھےبھاگے، ادھر ادھر نظر دوڑائی،بالآخر کامیابی ملی۔ مٹی کی بھٹی پر ایک ریڈیو رکھا ہوا تھا،وہی مسلسل بج رہا تھا،حالانکہ اس کے قریب لکڑی کے بنچ اور بڑی سی چوکی پر بڑے بوڑھوں کی محفل سجی ہوئی تھی ۔ پیچھے مٹھائی کے خالی ڈبے رکھے ہوئے تھے۔ وہ ریڈیو کی ذرا بھی سن نہیں رہے تھے،اپنی اپنی ایک دوسرے سے کہہ سن رہے تھے۔ان کےسامنے اخبار کے ایک ٹکڑے پر پھلوڑی(بھجیا)رکھی ہوئی تھی، اسی پر ہری ہری چٹنی بھی تھی، وہ باتیں بھی کررہے تھے اور چٹنی کے ساتھ پھلوڑی کی خبر بھی لے رہے تھے۔ایک بڑے میاں دھوتی کرتا پہنے ہوئے تھے، کرتے میں( نل) نیل زیادہ لگا ہوا تھا، سامنے ان کا گمچھا بھی رکھا ہوا تھا۔ وہ ہوٹل کے مالک سے کہنے لگے: ’’کا مردے رڈیواں بجاواکرے تھا، آج کل کیو سنے تھے، بیٹری نہ لگتی کا۔‘‘ (کیوں ریڈیو بجاتے رہتے ہیں، آج کل کوئی سنتا ہے، بیٹری نہیں لگتی ہےکیا؟)
اس پر ہوٹل کامالک مسکرا کر رہ گیا۔ یہ سن کر بڑے میاں کے ایک ہم عمر سے رہا نہیں گیا، اپنے پیچھے کی اینٹ اور مٹی کی دیوار پر لگے رنگین پوسٹرکی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اس کا اب کیا مطلب ہے؟ کوئی فائدہ ہے اس پوسٹر کا۔ اس پوسٹر پر لکھا تھا:’’سرکار بنانا آتا ہے، کیونکہ ہم مت داتا(ووٹر) ہیں۔‘‘ ان کے بقول:’’ آپ ہی بتائیے یہاں اس کا کیا کام ہے؟ کوئی دیکھتا ہے اسے، کسی کی بھی نظر نہیں پڑتی ہےاس پر، بس لگا دیا کسی نے ، اس پر آپ کو اعتراض نہیں ہے ، بس ریڈیو ہی کے پیچھے پڑے رہتےہیں، بجنے دیجئے اسے...آپ کو کیا تکلیف ہے؟‘‘
ادھر ریڈیو نے اعلان کیا :’’اسی کے ساتھ ہی آکاشوانی لکھنؤ سے علاقائی خبروں کا یہ بلیٹن ختم ہوا۔‘‘ تھوڑی کھر کھر ہوئی۔ پھر ایک آواز آئی:’’ہم آکاشوانی وارانسی کیندر سے بول رہے ہیں۔ میڈیم ویو ۲۴۱ء۵۴؍میٹر ارتھات ۱۲۴۲؍ہرٹزپر... مہیلائیں سنیں اپناکاریہ کرم..‘‘ پھر ایک نسوانی آواز سنائی دی:’’ کچھ تو لوگ کہیں گے لوگوں کا کام ہے کہنا۔ نمسکار سکھیو! ، کاریہ کرم ’گرہ لکشمی‘ میں آپ کا سواگت ہے۔‘‘ایک کاریہ کرم ختم اور دوسرا شروع ہوگیا مگر بڑے بوڑھوں کی محفل پر اس کاکوئی اثر نہیں ہوا، البتہ اپنی محفل میں کالم نگار کی حد درجہ دلچسپی یا یوں کہیں کہ تاک جھانک دیکھ کر ایک بڑے میاں چونکے اور اس جاسوسی کی وجہ کچھ اس طرح دریافت کی:’’کیا ہے بچوا(بیٹا)۔‘‘
سب کی نگاہیں کالم نگار کی طرف تھیں، جواب دینا ہی تھا، سوال کیا:’’دادا آپ لوگ ریڈیو نہیں سنیں گے تو کون سنے گا؟ ہماری نسل کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔طویل عرصے بعد ریڈیو سے کچھ سنائی دیا، اسی لئے یہاں آگیا، میں کوئی جاسوس واسوس نہیں ہوں۔‘‘
اس جواب پر قہقہہ گونجا۔ ان سب میں دیکھنے میں سب سے بڑے’ بڑے میاں‘ نے اپنے ہاتھ سے موٹا چشمہ ٹھیک کیا۔ان کے سر پہ بال نہیں تھے۔چہرےپرجھریاں تھیں۔ گویا ہوئے:پوٗتا(بیٹا) آپ لوگ وہ دن نہیں دیکھے ہیں، پہلے کس کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ ہوٹل بازی کرتا، یہی ریڈیو سننے کیلئے لوگ یہاں آتے تھے، یہیں آکر ہمیں پتہ چلا کہ اخبار کیا ہوتا ہے؟ ہوٹل کے اخبار اور ریڈیو سن کر ہی ہم بڑے ہوئے ، دیس پردیس گئے، کھائے کمائے،اب پھر اپنے گاؤں آگئے ہیں۔ یہ ریڈیو دیکھ کر ہمیں اپنا بچپن یاد آجاتاہے، میں چاہتا ہوں کہ کوئی سنے یانہ سنے، یہ ہمیشہ بجتا رہے ، اچھا لگتا ہے۔‘‘
ادھر وہ ریڈیو( اصل ریڈیو) اور یہ ریڈیو( محفل) چھوڑ کر کالم نگار موبائل میں کھوئے نوجوان طلبہ کے درمیان آیا اور پھر انہیں دیکھتا ہوا بائک سے آگے بڑھ گیا، پتہ نہیں، اس گاؤں کے ہوٹل میں اب بھی ریڈیو بجتا ہے یا نہیں؟
Renu
07-Feb-2023 04:31 PM
👍👍🌺
Reply